Wednesday, 26 August 2015

Nalter Lake where Fairies land

دن کافی ہو چلا تھا ہم اپنی اپنی موٹر سائکلز پہ کچے اور پتھریلے راستے پہ چلے جا رہے تھے۔ کافی دنوں سے نلتر جھیل تک جانے کا پروگرام ہوا تھا۔ میں اور چھوٹا بھائی اور میرا کزن صبح سویرے ہی کھانے پینے اور گرم کپڑے لیئے نلتر جھیلوں کی طرف چل دیئے۔زیر نظر تسویر بڈولوک جھیل کی ہے۔ بڈولوک شنا زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گدلے پانی کے ہیں۔یہ جھیل آس پاس کے گلیشیئرؤں سے رس رس کے آنے والے پانی سے بنی ہے۔اسے اگر گلیشئر جھیل کہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔اس جھیل کی ایک عجیب سی پر اسرار سی ہیبت سی ہے، ہمیں تو ایسا لگا۔ جب آپ اس جھیل پہ آئیں تو آپ کو کیسا لگے گا۔ یہ ہم بتا نہیں سکتے لیکن آپ ضرور بتایئے گا۔ ہم نے اس جھیل سے متعلق بہت سی پراسرار کہانیاں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں پہلے گماں سا لگ رہا تھا پر یہاں آکر یہ گمان یقین میں بدل گیا۔اس جھیل تک آنے کے لیئے کم از کم نیلے پانیوں والی جھیلوں سے تیس سے چالیس منٹ لگ گئے۔
ہم اپنے ساتھ کچھ بسکٹ اور کولڈ ڈرنک لائے تھے ۔ جب ہم اس جھیل پہ پہنچے تو کافی بھوک لگ رہی ےھی اس بھوک کا اثر تھا یا کچھ اور جو کچھ کھایا شاید اس سے پہلے ایسا لذیذ طعام پہلے نہیں کھایا ہو گا۔ یہاں ایک دو جھونپڑیاں بھی ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ شاید یہاں کے جو چرواہے تھے یہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ نتر ویلی اور اس سے متصل نالوں میں گجروں کی آبادی ہے۔

Tuesday, 25 August 2015

Nomal Valley,Lush and Green

یہ میرا گاؤں نومل ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے ہنزہ اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ ٹھاٹھیں مارتا ہوا بہتا ہے۔ مغرب میں کوہ قراقرم کے وسیع تر پھیلے ہوئے پہاڑ ہیں اور کہیں دور بہت ہی اونچائی پہ نومل ویلی کی ہری بھری چراگاہ ترموئی ہے۔ 
   جہاں پہ نومل کے عوام اپنے مال مویشیوں کو لے جاتے ہیں۔شمال میں گوچی گاؤں ہے اور جنوب میں گلگت شہر واقع ہے۔ نومل ویلی کا بہت ہی پرانا نام نگھم ہے 


یہ تصویر رحیم آباد گاوں کے انتہائی قریب سے لی گئی ہے ۔ کوشش کی گئی ہے کہ نومل ویلی کا پورا منظر محفوظ کیا جائے اس کوشش میں ہم کتنے کامیاب ہوئے ہیں ہمیں ضرور بتایئے گا۔ دریائے ہنزہ کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ منظر انتہائی گرمیوں کے موسم میں لی گئی ہے دریائے ہنزہ مین پانی کا بہاو بھی کافی حد تک زیادہ ہے۔ اور گدلا ہے۔

صبح صبح دریائے ہنزہ پہ دھند سے بھری سرد ہوائیں وہ بھی انتہائی گرمیوں کے دنوں میں بہت ہی سہانی ہوتی ہے۔نومل ویلی اور جوتل سے متصل پل پہ کھڑے ہو کے ٹھنڈی ہوا کا لظف اٹھانا ایک الگ ہی بات ہے۔

Thursday, 20 August 2015

Rama Valley,Astor

گلگت بلتستان دینا کا ایک نہایت ہی خوبصورت اور پرکشش خطہ ہے۔ یہاں پر جھیلیں دنیا کے بلند ترین پہاڑ اور صحرا موجود ہیں ۔زیر نظر کھینچی گئی تصویر راما گاؤں ہے جو ضلع استور میں واقع ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے اس قدرتی حسن سے مالامال وادی کو دیکھنے کے لئے سیاح تقریبا ہر موسم میں آتے رہتے ہیں۔اس وادی میں اکثر موسم بہت ہی سرد رہتا ہے۔اگرآپ بھی یہاں آنا چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ گرم کپڑے لے کر آئیے گا۔ یہ جگہ کیمپنگ اور ٹریکنگ کے لیئے بھی بہت ہی موزوں ہے۔سردیوں کے موسم میں سڑک برف سے ڈھک سی جاتی ہے۔ زیادہ تر سرد ترین موسم کی وجہ سے یہاں تک سڑک بند ہو جاتی ہے۔فوٹو گرافرز حضرات کے لئے یہ جگہ کسی جنت سع کم نہیں۔ برف سے ڈھکی ہوئی یہ حسین و جمیل وادی بہت ہی پرکشش ہے فوٹو گرافر حضرات کے لیئے۔


Nalter Lake

گلگت بلتستان میں واقع ایک بہت ہی خوبسورت جگہ وادی نلتر جسے قدرت نے بے پناہ قدرتی حسن سے سجا رکھا ہے ۔وادی نلتر میں لگ بھگ چھ مختلف بے حد  قدرتی خوبصورت جھیلیں ہیں جو اپنے بے پناہ قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحو ں کے لیئے کشش کا باعث ہیں۔زیر نظر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کی گئی تصویر بھی ایک ایسی ہی جھیل کی ہے ۔ یہ جھیل آس پاس کے برفیلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف سے رس رس کے آنے والے پانی سے بنی ہے۔ یہ پانی زیر زمیں پہاڑوں کے اندر ہی اندر رس کے ہیاں جمع ہو کے یہ خوبسورت جھیل بنی ہے۔پاکستان اور دنیا بھر سے قدرتی حسن کے شوقین حضرات یہاں آتے رہتے ہیں۔فوٹو گرافرز حضرات کے لیئے یہ بہت ہی موزوں جگہ ہے۔یہاں آتے وقت اپنے سات گرم کپڑے کوٹ چھتری وغیرہ لے کر آیئے گا۔کیونکہ یہاں بارش اور برف باری ہونے کا کوئی ٹائم نہیں ہے۔ارے بھئی ایک بات تو بتانا ہم بھول ہی گئے۔ وہ یہ کی یہاں تک آنے راستہ بہت ہی خراب ہے۔ کیونکہ ہر موسم بہار یعنی سیاحت کے ماسم میں یہاں زیادہ گرمی کی وجہ سے نلتر نالے میں پانی کا اخراج بہت ہی زیادہ ہو جاتا ہے۔ جس سے سڑک ٹوٹ بھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ بہرحال نلتر آتے وقت اپنے ساتھ ٹینٹ وغیرہ لے کر آیئے گا۔ 
جب آپ اس جھیل والی جگہ پہ  پہنچ جائیں گے تو آپ کو اور دو تین جھیلیں دکھائی دیں گی۔ یہ جھیلیں بھی برفیلے پانی کے 
چشموں سے بنی ہیں۔