دن کافی ہو چلا تھا ہم اپنی اپنی موٹر سائکلز پہ کچے اور پتھریلے راستے پہ چلے جا رہے تھے۔ کافی دنوں سے نلتر جھیل تک جانے کا پروگرام ہوا تھا۔ میں اور چھوٹا بھائی اور میرا کزن صبح سویرے ہی کھانے پینے اور گرم کپڑے لیئے نلتر جھیلوں کی طرف چل دیئے۔زیر نظر تسویر بڈولوک جھیل کی ہے۔ بڈولوک شنا زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گدلے پانی کے ہیں۔یہ جھیل آس پاس کے گلیشیئرؤں سے رس رس کے آنے والے پانی سے بنی ہے۔اسے اگر گلیشئر جھیل کہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔اس جھیل کی ایک عجیب سی پر اسرار سی ہیبت سی ہے، ہمیں تو ایسا لگا۔ جب آپ اس جھیل پہ آئیں تو آپ کو کیسا لگے گا۔ یہ ہم بتا نہیں سکتے لیکن آپ ضرور بتایئے گا۔ ہم نے اس جھیل سے متعلق بہت سی پراسرار کہانیاں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں پہلے گماں سا لگ رہا تھا پر یہاں آکر یہ گمان یقین میں بدل گیا۔اس جھیل تک آنے کے لیئے کم از کم نیلے پانیوں والی جھیلوں سے تیس سے چالیس منٹ لگ گئے۔
ہم اپنے ساتھ کچھ بسکٹ اور کولڈ ڈرنک لائے تھے ۔ جب ہم اس جھیل پہ پہنچے تو کافی بھوک لگ رہی ےھی اس بھوک کا اثر تھا یا کچھ اور جو کچھ کھایا شاید اس سے پہلے ایسا لذیذ طعام پہلے نہیں کھایا ہو گا۔ یہاں ایک دو جھونپڑیاں بھی ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ شاید یہاں کے جو چرواہے تھے یہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ نتر ویلی اور اس سے متصل نالوں میں گجروں کی آبادی ہے۔
No comments:
Post a Comment